+91 9911598954 [email protected]

جامعہ مصباح کی روشن یادیں

Category : Latest
July 13, 2023

سراج احمد برکت اللہ فلاحی

شمالی ہند کا معروف ادارہ جامعہ مصباح العلوم چوکونیاں ضلع سدھارتھ نگر میں رہ کر مجھے الحمدللہ دوسال کسب فیض کا موقع ملا ۔ دوسال کے انتہائی مختصر ترین عرصے میں بہت کچھ سیکھنے ، جاننے اور پڑھنے کو ملا ۔ مشفق اساتذۂ کرام سے دوستانہ ماحول میں اپنا تعلیمی کیریئر پروان چڑھانے کا موقع ملا ۔ اسی طرح ساتھیوں اور دوستوں کی ٹیم میں قابل ذکر اضافہ بھی ہوا۔انجمن طلبہ قدیم جامعہ مصباح العلوم کے ذمہ داران کی جانب سے بار بار اصرار پر آئندہ سطور میں جامعہ مصباح کی یادوں کو آپ کے حوالہ کیا جارہاہے۔ امید ہے کہ بعض طلبہ ساتھیوں کواس سے حوصلہ ملے گا، بعض ساتھی اس تحریر میں اپنی یادیں پاسکیں گے ۔ بعض دیگروابستگان بھی جامعہ کے روشن ایام کی جھلک دیکھ سکیں گے۔

میں جامعہ اسلامیہ تلکہنا سدھارتھ نگر میں درجہ عربی سوم میں زیر تعلیم تھا۔ بہترین تعلیم وتربیت، دارالاقامہ کا اچھا ماحول اور ہم نصابی سرگرمیوں کا خوب صورت سلسلہ چل رہاتھا کہ سالانہ امتحان سے قبل 29ستمبر 2001 مجھے مجبوراً گھر آنا پڑا۔ امتحان کی تاریخ معلوم تھی ۔ امتحان سے ایک روزقبل شام کے وقت جامعہ پہنچا تاکہ اگلے دن سالانہ امتحان میں شرکت کرسکوں ۔ رات میں کسی قدر تیاری بھی کرلی تھی لیکن فجر بعد ہی استاد محترم مولانا محمد اختر فلاحی صاحب نے بلایا اور کہا کہ آپ ابھی گھر چلے جائیں اور امتحان کی فکر نہ کریں ۔ ششماہی امتحان کی بنیاد پر سالانہ رزلٹ بھی دے دیا جائے گا۔ ناشتہ کیا ، ساتھیوں اور اساتذہ سے ملاقات کی اور سائیکل سےسیدھے گھر آگیا ۔ گھر پر بھی مطالعہ کرنے کی یومیہ عادت تھی ۔ الحمدللہ مطالعہ جاری رہا۔ رمضان المبارک شروع ہوا تو نصاب کو سامنے رکھ کر معارف القرآن، تفسیر ابن کثیر (اردو) اور تفہیم القرآن کی مدد سے آخری تین پاروں کی پوری تفسیر مکمل کی۔ یہ پہلا رمضان تھاکہ مجھے اعتکاف کی بھی توفیق ملی۔رمضان کی خاص ساعات میں ابتلاء وآزمائش سے گزررہے قافلہ سخت جاں کے ساتھیوں کو بھی خصوصی دعاؤں میں یاد کیا گیا۔

سال کے پہلی ہفتہ واری انجمن میں طلبہ کا باہمی تعارفی پروگرام تھا۔ عربی اول تا عربی پنجم کا گروپ تھا ۔ نئے پرانے سب بچے باری باری اپنا تعارف کرارہے تھے۔ تعارف کے ساتھ دو بچوں کی اردو تقریر بھی تھی ۔ ایک تقریر میں نے پیش کی۔ وہ تقریر رٹی رٹائی نہ تھی بلکہ اپنے الفاظ میں تقریر تھی ۔ عنوان تھا:’’ زندگی بے بندگی شرمندگی‘‘ ۔ اس موضوع پر میں دو بار خطبہ جمعہ دے چکا تھا۔ اساتذہ نے خوشی کا اظہار کیا ۔ اس مجلس میں بالخصوص نئے طلبہ کو ہدایت تھی کہ اپنا تعارف کرائیں اور ساتھ ہی اپنا ایک پسندیدہ شعر بھی سنائیں۔ میں نے یہ شعر پڑھاتھا:

سوچا ہے کفیل اب کچھ بھی ہو ہرحال میں اپنا حق لیں گے

عزت سے جئے تو جی لں گے یا جام شہادت پی لیں گے

اسلامی طلبہ تحریک کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ بعض طلبہ ساتھی گھروں کو چلے گئے اور میں بھی گھر چلا گیا تھا ۔ اس لیےعربی سوم کا سالانہ امتحان نہیں دے سکا تھا ۔ اساتذہ میں سے مولانا عبدالاول ندوی صاحب حوالۂ زنداں کردیے گئے تھے جب کہ مولانا عبدالرحیم اصلاحی اور مولانا کرم حسین فلاحی صاحبان تدریس سے روک دیے گئے تھے۔ اس لیے ارادہ بنا کہ نئے تعلیمی سال شوال میں جامعہ مصباح یا جامعۃ الفلاح جانا ہے۔ ابو محترم نے کہا بلریاگنج تو بہت دور ہے تم دو بھائی ہو چوکونیاں ہی چلے جاؤ۔ دس شوال کو ابو کے ساتھ ہم دونوں بھائی میں اور اشتیاق احمد ، ناشتہ بعد گھر سے نکلے اور مغرب تک ڈومریاگنج پہنچے ۔ تین بار سواریاں تبدیل کرنی پڑیں اور لوکل بسوں کا حال بہت برا تھا۔ مغرب بعد بیدولہ سے انتظار کے بعد بمشکل موتی گنج کے لیے جیپ ملی۔ بس جھکہیا میں کھڑی تھی تو تلکہنا کے ہم درس ساتھی شمس الدین بھائی سے ملاقات ہوئی، ان کو بتایا کہ جامعہ مصباح چوکونیاں جارہاہوں۔ وہ بولے اچھا آپ جارہے ہیں تو ہوسکتا ہے میں بھی کل آؤں۔ موتی گنج سے راستہ معلوم کرکے پید ل چوکونیاں کی طرف چلے۔ رات اندھیری تھی، سڑکوں پر آمد ورفت بندہوچکی تھی، ساتھ میں کپڑے ،بستر اور کھانے پینے کی چیزیں تھیں ،ارادہ تھا کہ داخلہ کے بعد رک جائیں گے۔ کچھ سامان ہاتھ میں لیے اور کچھ سامان کندھے پر لادے ہم چلے جارہے تھے، ساتھ میں موبائل یا ٹارچ بھی نہیں تھا ۔سڑک سے دونوں جانب کی کھیتوں سے گیدڑوں کی بار بار آوازیں آرہی تھں ۔ ابو بولنے لگے:کس مدرسہ کا تم لوگوں نے ارادہ کرلیا ہے، یہاں روڈ سے کافی اندر آنا پڑتا ہے، گھر سے آتے آتے رات ہوجایا کرے گی، کیسے آؤ اور جاؤگے؟ بہر حال جامعہ پہنچے تو لائٹ نہیں تھی۔ مین گیٹ پر ایک بچہ نے اشارہ کیا ، سیدھے جنوب والے کمرے میں گئے ۔ وہاں تین چار اساتذہ لال ٹین کے اجالے میں کھانا کھارہے تھے۔ اس دن جنریٹر غالباً خراب تھا۔ حافظ ناصر الدین صاحب اور مولانا عبدالوکیل رحمانی صاحب بھی تھے ۔ مختصر بات چیت کے بعد مسجد کی بغل والے کمرے میں ہمیں بھیج دیا گیا اور کچھ دیر کے بعد کھانے کا انتظام بھی ہوا۔صبح داخلہ ٹیسٹ ہوا ۔ ٹیسٹ زبانی ہی ہوا اور فوری طور بعض جوابات لکھوائے بھی گئے۔ تفسیر ، نحو وصرف اورانگلش کا ٹیسٹ دیا۔ الحمدللہ سارے سوالوں کا جواب ٹھیک ٹھیک دیا۔ ماسٹر محمد یوسف صاحب نے ایک سوال کیا مجھے گھر جانا ہے، انگلش بناؤ ۔ میں نے بتایا کہ اسے نہیں پڑھا ہے ۔ اسی طرح مولانا شبیر احمد فلاحی صاحب تفسیر کا ٹیسٹ لے رہے تھے آپ نے پوچھا فعدتھن کا مادہ کا ہے؟ اس کا جواب نہیں دے سکا۔26 دسمبر2001 بمطابق 11 شوال 1422 ہجری داخلہ ہوا۔پڑھائی شروع ہوئی تو پھر میں عیدالاضحیٰ کی چھٹی میں ہی گھر گیا۔ جامعہ اسلامیہ تلکہنا سے عربی سوم کا رزلٹ اور ٹی سی منگوانا تھا۔ غالباً فون کے ذریعہ درخواست کی تھی۔ میرے کاغذات تیار کرکے کسی صاحب کے حوالہ کردیا گیا ۔ ان کو کہا گیا تھا کہ جامعۃ الصالحات بانسی میں مولانا امیر احسن فلاحی صاحب کو دیدیجیے گا ، مولانا یہ لفافہ جامعہ مصباح بھیجو ادیں گے ۔ سوئے اتفاق وہ لفافہ مصباح دفتر میں نہیں پہنچا اور کوئی جانکاری بھی نہیں مل سکی کہ کہاں رہ گیا ۔ ششماہی امتحان کے بعد گھر آیا تو اگلے ہی دن جامعہ اسلامیہ تلکہنا گیا اورعربی سوم کا رزلٹ اور ٹی سی بنواکر لایا۔ اس وقت مجھے ریکارڈ دکھایا گیا کہ پہلے ہی آپ کی ٹی سی ایشو ہوچکی ہے اور اب دوبارہ بنائی جارہی ہے جو 30 مارچ 2002 کی جاری کردہ ہے۔ میں جامعہ اسلامیہ تلکہنا چھ سال پڑھ چکاتھا ، اس لیے جامعہ مصباح مجھے بہت چھوٹا مدرسہ لگ رہاتھا۔ لائبریری سے متصل جنوب والے ہال میں نماز ہوتی تھی ۔ دارالاقامہ اور کلاس رومس بھی چھوٹے چھوٹے تھے۔ ایک طرف رہائشی کمرے تھے اور اسی سے متصل کلاس روم بھی ۔ ڈائننگ ہال بھی چھوٹا تھا اور نہانے دھونے کی جگہیں بھی چھوٹی ہی تھیں ۔ بار بار خیال آتا تھا کہ ایک بڑے ادارے سے نکل کر بالکل چھوٹے سے ادارہ میں کیوں آگیا؟ تلکہنا سے استفادہ کرنے والے دوچار ہی طلبہ تھے۔ شمس الدین بھائی میر ی ہی کلاس میں تھے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد اسلم ، ان کے گاؤں سے دو چھوٹے چھوٹے بچے مسعود عالم اور ایک ان کے ساتھی اور اقبال احمد فلاحی صاحب کے دو بچے جاوید اقبال اور ریحان اقبال وغیرہ بھی تھے۔ لیکن جلد ہی ساتھیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور بہت خوش گوار اور بہت ہی اچھے تعلیمی اور خیرخواہانہ ماحول میں پڑھائی کی گئی۔

جس سال مصباح پہنچا، عربی چہارم میں تھا ۔اسی سال جامعۃ الفلاح کی طرف سے بنین اور بنات کا نصاب بالکل یکساں کردیا گیا تھا۔ اساتذہ نے بتایا کہ اس کی وجہ سے نصاب پہلے کی بہ نسبت کسی قدر آسان ہوگیا ہے ۔ امتحانات کے سوالات بھی ایک کردیے گئے تھے۔ غالبا ً اس سے قبل کلیۃ البنات کے سوالات الگ اور بہت آسان ہوتے تھے۔ نصاب اور سوالات یکساں ہونے کی وجہ سے طلبہ کے لیے نسبتاً معاملہ آسان ہوگیا تھا۔ عربی چہارم میں کتابوں کی تعداد اچھی خاصی تھی اور غالباً فلاح کے نصاب میں عربی چہارم میں کتابیں سب سے زیادہ تھیں ۔ ہوم ورک میں اچھا خاصا وقت لگتا تھا ۔میں چوں کہ تلکہنا میں فرسٹ پوزیشن ہولڈر تھا۔ جامعہ کی تبدیلی ، نئے کلاس ساتھی اور نیا ماحول کی وجہ سے مجھے پہلی پوزیشن برقرار رکھنے میں خدشہ محسوس ہورہاتھا ۔ اس لیے بہت محنت اور لگن سے پڑھائی کررہاتھا۔ بڑی یکسوئی کے ساتھ پورا وقت پڑھنے میں لگارہاتھا۔ تلکہنا میں ہم نصابی سرگرمیوں میں بہت متحرک تھا ، غیر درسی کتابوں کا مطالعہ بھی پابندی سے کررہاتھا لیکن مصباح میں صرف پڑھائی پر توجہ تھی۔ نصاب سے متعلق ہی کتابیں پڑھتا تھا۔ ہاں جب عربی پنجم میں پہنچا تو ساتھیوں نے جمعیۃ الطلبہ میں مجھے کئی ذمہ داریاں دے دی تھں اورمیں ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔

چوکونیاں میں عربی چہارم میں جو انگلش پڑھائی جاتی تھی وہ تلکہنا عربی سوم میں ہی پڑھ چکا تھا۔ مولانا کرم حسین فلاحی صاحب انگلش کے ماہر استاد ہیں، ان کی توجہ کے سبب پوری کتاب مجھے ازبر یادتھی ۔ الفاظ کے معانی اور ترجمہ کہیں سے بھی سنادیاکرتا تھا۔ مصباح میں ماسٹر محمد یوسف صاحب انگلش پڑھاتے تھے۔ بالخصوص انگلش نظم سے کسی بند کا ترجمہ کرتے تھے تو میں بتاتا تھا کہ ماسٹر صاحب تلکہنا میں تو مجھے اس طرح پڑھایا گیا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کئی جگہوں پر ماسٹر صاحب نے کرم حسین فلاحی صاحب کے ترجمہ کو اختیار کیا اور کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ترجمہ کرنے سے قبل پوچھتے تھے کہ اچھا سراج صاحب اس کا ترجمہ کیجیے ۔ اس کو آپ نے کیسے پڑھا ہے؟ اس کے بعد پڑھاتے تھے۔ غالباً ماسٹر صاحب پہلے سال وہ کتاب پڑھارہے تھے لیکن میرا احساس ہے کہ وہ بہت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرکے آتے تھے اور کتاب میں ڈوب کر پڑھاتے تھے۔ بہت خاکسار تھے اور جب بھی میں نے بتایا کہ ہم نے اس طرح پڑھا تھا تو کبھی برا نہیں مانتے تھے۔ اگر ان کا ترجمہ مختلف ہوتا تومجھ کو سمجھاتے تھے کہ صحیح یہ ہے۔

مصباح العلوم میں ہفتہ واری انجمن کی خوبی یہ تھی کہ الگ الگ گروپ میں طلبہ کو تقسیم کردیا جاتا تھا اور ایک گروپ میں مختلف درجات کے طلبہ ہوتے تھے۔ ہر طالب علم کو ہر ہفتہ کسی نہ کسی زبان میں تقریر کرنی ہوتی تھی۔ اردو، عربی اور انگلش تقاریر کی باریاں تھیں اور کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا تھا۔ ایک خوبی یہ تھی کہ بچے ہی کنوینرشپ کرتے تھے اور اساتذہ اصلاح کیا کرتے تھے۔ مولانا مفتی نعیم الحق قاسمی صاحب کی اصلاحات کا انداز بڑا پیارا اور دل چسپ ہوا کرتا تھا۔ہر جمعرات کو بعد نماز مغرب الگ سے طلبہ کا پروگرام ہوتا تھا جس میں صرف طلبہ ہوتے تھے اور بالکل آزادانہ ماحول میں انجمن چلاتے تھے۔ کبھی کبھی حکم کے طور پر اور مہمان مقرر کے طورپر اساتذہ کی خدمات لی جاتی تھیں ۔ ایس آئی او کی جانب سے منعقد اس انجمن میں بھی بچے شوق سے حصہ لیتے تھے ۔ ان پروگراموں میں مقابلہ قرات، مقابلہ نظم خوانی، مقابلہ اردو تقاریر، برجستہ تقریری مقابلے، مکالمات اور مذاکرے شامل ہوا کرتے تھے۔ ایک بار برجستہ تقریری مقابلے میں شریک ہونے والوں میں میرا نام بھی تھا۔ اتفاق سے حکم کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ میں سے ایک حاضر نہ ہوسکے تو ساتھیوں نے مجھے ہی حکم بنادیاتھا۔ ہفتہ واری انجمنوں میں نمایاں نام فاروق اعظم ، ابوذرعثمانی، تنویر عالم، محمد اسلم ، حافظ حمید الدین، کاتھا۔ابوذر بھائی غزلیں پڑھتے تو اس شان سے کہ جیسے خود ان کی تخلیق ہو۔

مصباح کی اچھی یادوں میں جامعہ میں صفائی ستھرائی کا معقول نظم تھا ۔ رہائشی کمرے، برآمدے، سیڑھیاں، کلاس روم ، ڈائننگ ہال، مسجد ، فیلڈ۔ اور بیت الخلاء سب کی صفائی طلبہ ہی کرتے تھے۔ کلاس روم اور رہائشی کمرے و برآمدے روزانہ ، جب کہ بیت الخلاء ہفتہ میں دو بار اور ڈائننگ ہال کی ہفتہ میں ایک بار صفائی کی جاتی تھی۔ استاد محترم مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب بہت نفاست پسند تھے اور صفائی پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ جامعہ صفائی کے معاملہ میں بالکل گھر جیسا تھا ۔ بعد میں درجنوں مدارس وجامعات کی زیارت کا موقع ملا اور آج بھی کسی ادارہ میں جانا ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہاں صفائی ستھرائی کیسی ہے؟ اسی پر دھیان جاتا ہے۔مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب کی تحریک پر ایک بار ہم لوگوں نے بیت الخلاء سیفٹی ٹنکی بھی صاف کرڈالی تھی۔ غالباً صفائی کرنے والے بہت پیسہ مانگ رہے یا صفائی بالکل ناگزیر ہوگئی تھی اور وہ ہر روز کل کا وعدہ کرکے نہیں آتے تھے۔

مصباح کی روشن یادوں میں وہاں عربی اور انگلش بول چال کی کلاسیں تھیں ۔ آخری گھنٹی میں ہفتہ میں تین دن عربی اور اگلے تین دن انگلش اسپیکنگ کا کلاس ہوتا تھا۔ جس میں سب کے سب طلبہ کو حصہ لینا ہوتا تھا۔ مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب عربی زبان پڑھاتے تھے۔ عربی اخبارات وجرائد سے اقتباسات پڑھواتے، کبھی زبانی بولتے اور اس کی عربی بنواتے اور کبھی کبھار بول چال کرواتے تھے۔ ایک بار شاید مولانا ہم طلبہ سے ناراض تھے، آتے ہی بولے لکھو ۔ عربی پنجم کے طلبہ نے میری امیدوں کا خون کردیا ہے۔ اس کی عربی بناؤ۔ ماسٹر توقیر عالم صاحب انگلش اسپیکنگ کا کلاس لیتے تھے ۔ وہ مختلف عنوان دے کر مشق کرواتے تھے۔ کبھی اسٹیشن ، کبھی اسکول ، کبھی اسپتال، کبھی ڈاک خانہ ، کبھی سرکاری محکمہ، کبھی پولیس اسٹیشن تو کبھی ریڈیو اسٹیشن کو مرکزی عنوان بناکر بول چال کرواتے تھے۔ ہم طلبہ میں سے کسی کو ڈاکٹر ، کسی کو مریض، کسی کو میڈیکل اسٹور والا تو کسی کو گارجین بناکر بات کرواتے تھے۔ کلاس کے بعد باہم بڑی ہنسی ہوتی تھی۔ بڑے اچھے ماحول میں ہنستے ہنستے ہم لوگ سیکھ لیتے تھے۔میں انگلش بول چال میں بہت جھجھک محسوس کرتا تھا لیکن ماسٹر صاحب کے اصرار کی وجہ سے بولنا شروع کردیا تھا۔الحمدللہ مصباح کے ماحول کی برکت اور اساتذہ کرام کی محنت تھی کہ عالمیت آخر میں کلاس کے تقریباً سبھی ساتھی عربی اور انگلش بولنے لگے تھے۔ اس کا ابھی تک ہم لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں ۔

مصباح کی اچھی یادوں میں ایک بات مزید قابل ذکر ہے کہ عصر بعد کھیلنا لازمی تھا۔ کھیلنے کی بھی باریاں تھیں ۔ مجھے والی وال کا شوق تھا اور پابندی سے کھیلتا تھا ۔ نیٹ لگانے اور والی وال رکھنے کی باری ہوتی تھی ۔ روزانہ نیٹ نکال کر چپراسی کے روم میں رکھ دیا جاتا تھا۔ والی بال کھیل کے ساتھیوں میں شمس الدین، عارف کمال ، محمد اسلم، محمد ابراہیم ، محمد شمیم ، نجم الھدی، طارق عزیز وغیرہ تھے۔جب کہ فٹ بال کھیلنے والوں میں عاشق الٰہی ، محمد ابراہیم ، محمد انوارالحق ، ہلال وانی وغیرہ تھے۔

مصباح کی خوش گوار یادوں میں جامعہ سے بالکل دور فیلڈ سے مغربی کنارے پر عالیشان مسجد ہے۔ برسات کے ایام تھے۔ کھیت میں پانی بھرا ہوا تھا۔ کسی خاص مناسبت سے مسجد کی بنیاد رکھی گئی ۔ مہمانان ، اساتذہ ٔ کرام کے بعد بڑے طلبہ کی باری آئی تو ہمیں بھی اینٹ رکھنے کا موقع ملا ۔ آج جب بھی جامعہ جاتے ہیں تو وہ دن یاد آجاتا ہے ۔ اللہ اس مسجد کو اور جامعہ کو تاقیامت آباد رکھے۔ !

عالمیت آخر میں میرے مقالہ کا عنوان تھا اسباب غزوات الرسولﷺ ۔ مولانا اشتیاق عالم فلاحی صاحب مشرف تھے۔ ان کی ہدایت پر پہلے موضوع سے متعلق کئی اردو کتابوں کا مطالعہ کیا ۔ پھر عربی کتابوں کی مدد سے مقالہ تیار کیا ۔ مولانا نے کہا مقالہ کے لیے مقدمہ اور خاتمہ خود اردو میں تیار کیجیے۔ پہلے اردو زبان میں لکھ کر دکھایا تو خوش ہوگئے اور اس کا عربی ترجمہ خود سے املا کرایا ۔

۔غالباً عربی چہارم کا ششماہی اور سالانہ اور عربی پنجم میں سالانہ یعنی تین امتحانات ہم لوگ فلاح جاکر دیے تھے۔ امتحانات کے ایام میں جامعۃ الفلاح میں تھے ۔ احساس ہوا کہ فلاح میں میس اور کھانے کا اہتمام چوکونیاں کی طرح نہیں تھا پھر بھی امتحان کی تیاری کی فکر اس قدر ہوتی تھی کہ کھانا کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا۔ جامعۃ الفلاح میں مسجد میں بیٹھ کر گروپ کی شکل مں امتحان کی تیاریاں کی جاتی تھیں ۔ میں اپنے مصباح کے ساتھیوں کی تیاری کرواتا تھا تو اس مجلس میں بڑی تعداد فلاح کے طلبہ کی آجاتی تھی۔ فلاح امتحان کے لیے گئے تو تین دوستوں طارق عزیز فلاحی ، ابوبکر سباق سبحانی اور مفتی سہیل احمد قاسمی نے باری باری اپنے گھر جملہ ساتھیوں کی اجتماعی دعوت لی اور پہلی بار اعظم گڑھ کی مخصوص اور پرتکلف ضیافت سے ہم لوگ محظوظ ہوئے ۔ جزاھم اللہ خیرالجزاء

مصباح میں آخری درجات کے طلبہ کو ذمہ داران اوراساتذۂ کرام کی موجودگی میں اپنے تاثرات پیش کرنے ہوتے تھے۔ میرے جملہ ساتھیوں نے باری باری اپنے تاثرات بیان کیے ۔ مجلس میں عجیب سماں بندھ گیا ۔ جو طلبہ عربی اول یا اس سے بھی پہلے سے جامعہ میں پڑھ رہے تھے۔ جب آئے تھے تو اردو بولنا نہیں جانتے تھے آج وہ خطیب بن کر جارہے تھے، ان کو دین کی کوئی جانکاری نہیں تھی آج وہ عالم دین ہوگئے تھے، ان کو دین پر عمل سے کوئی دل چسپی نہ تھی آج وہ دوسروں کو دین پر عمل کے لیے ابھارنے والے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے تین باتیں کہی تھیں ۔ جامعہ مصباح میں ہر مکتب فکر کے اساتذہ کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ اہل حدیث علماء کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔ دوسری بات جب بچوں سے کوئی غلطی ہوجائے تو بند کمرے میں سزا نہ دی جائے ۔ جب بھی کسی طالب علم کو سزا دی جائے تو نماز وں کے بعد یا ترانہ میں اس کا اس انداز سے تذکرہ کردیا جائے کہ دوسرے طلبہ آئندہ ایسی حرکت یا شرارت نہ کریں اور اس واقعہ سے عبرت لیں ۔ تیسری بات یہ کہ مہوارے اور موتی گنج موڑ پر بڑا سا بورڈ لگوایا جائے جس میں موٹے حروف میں جامعہ مصباح العلوم درج ہو۔ تاکہ نئے آنے والے طلبہ اور زائرین کے اندر ایک اچھا اور خوش گوار احساس پیدا ہو۔

عربی پنجم میں سالانہ امتحان دینے کے لیے جب ہم لوگ فلاح نکل رہے تھے تو بالکل عجیب منظر بن گیا تھا ۔ اساتذہ کے ساتھ چائے پانی کی نششت ، گروپ فوٹوز، اساتذہ اور ساتھیوں سے الوداعی ملاقاتیں اور دعائیں ، جدائی کا غم ، جامعہ کو ہمیشہ کے لیے رخصت کرنے کا غم ، مصباح کی بھرپور زندگی ، سیکھنے سکھانے کا مصروف ترین ماحول ، دوسال اور پانچ سال میں مصباح کے آنگن میں کیا کیا سیکھے ، کیا تھے اور اب کیا بن کر نکل رہے ہیں ، پڑھائی اور کھیل کے ساتھیوں کے یارانہ مراسم ، دوستوں سے ہنسی مذاق اور خوش گپیاں، ان احساسات کے ہجوم مں بعض ساتھی اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کرسکے۔

مصباح کی زندگی میں، احساس ہوا کہ وقت بہت قیمتی ہے ۔ صبح سے شام تک نظام الاوقات کی پابندی تھی۔ فجر بعد تجوید سکھانے کا اہتمام، پھر پی ٹی اور چائے توش کا سلسلہ ،ناشتہ میں چنا ، تہاڑی ، اور ہفتہ میں ایک بار حلوہ کا اہتمام ۔ کریلا مجھے بالکل پسند نہیں تھا لیکن مصباح میں انعام اللہ فلاحی صاحب کی بار بار نصیحت کے سبب کھانا شروع کردیا تھا۔ پہلے گھر سے چٹنی، بکنی، اور اچار پابندی سے لے جاتے تھے لیکن چوکونیاں گئے تو اس کی ضرورت باقی نہ رہی۔

غالباً مخیم صیفی کے موقع سے یا عربی پنجم کے سالانہ امتحان سے قبل بین المدارس تقریری مقابلہ کا بھی اہتمام تھا۔ پہلے جامعہ کی سطح پر مسابقہ ہوا ۔اور یہ اعلان تھا کہ جو اس مسابقہ میں اول آئے گا اسے ہی بین المدارس مسابقہ میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ مںح نے اردو، عربی اور ہندی تقریر میں حصہ لیا تھا ۔اردو اور ہندی دونوں میں میری پہلی پوزیشن آئی تھی ۔ مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب مجھے اپنے روم میں بلائے اور کہا کہ اعلان کے مطابق اردو اور ہندی کے لیے آپ کا ہی نام ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہندی تقریر کے لیے آپ کے ہی ساتھی فاروق اعظم جو دوسرے نمبر پر آئے ہیں، ان کو بین المدارس مسابقہ کے لیے رکھا جائے ۔ کیوں کہ بس ایک نمبر سے آپ آگے ہیں جو اتفاق کی بات ہوتی ہے اور نمائندگی کے لیے الگ الگ طالب علم ہوں ۔ بہ صورت دیگر یہ سمجھا جائے گا کہ ہونہار بچے بس چند ہی ہیں ۔ میں اس پر راضی ہوگیا۔

وامی ریاض کی جانب سے عربی پنجم والے سال میں پانچ روزہ سمر کیمپ 25 تا29 اگست 2003 جامعہ کے احاطہ میں لگا۔ بہت اچھا پروگرام رہا۔ مولانا محمد رافع مظہری صاحب کی تذکیر، مولانا مشتاق احمد فلاحی کا دینیات کا درس ، مولانا عبدالواحد عبدالقدوس مدنی کا درس عقید ہ، مولانا ولی اللہ سعیدی کا اختتامی مجلس میں خطاب عام قابل ذکر رہا۔ ساتھ ہی مخیم کے ذمہ داران بالخصوص جنید احمد فلاحی اور رضوان احمد رفیقی کی ملاقات ایمان افروز اور حوصلہ بخش تھی۔کلیۃ الصفا ڈومریاگنج میں جنرل نالج کا مسابقہ ہوا جس میں مصباح کے چند طلبہ شریک ہوئے تھے ۔ اس مسابقہ میں میری دوسری پوزیشن آئی تھی ۔ کچھ کتابیں اور کچھ نقد پیسے ملے ۔ اسی رقم سے تلخیص تفہیم القرآن میں نے خریدی تھی جس سے آج بھی استفادہ جاری ہے۔ الحمدللہ ایک بار گرمی کی چھٹی غالباً ایک مہینے کی ہوئی۔دور کے بچے چھٹی میں گھر نہیں گئے تھے۔ میں نے صدر مدرس سے اجازت لے لی تھی اور دو ہفتہ جامعہ رہ کر غیرتدریسی مطالعہ کیا ۔تاریخ اسلام اکبر نجیب آبادی اسی موقع سے مکمل پڑھا۔ اور اسی موقع سے مولانا اظہرالدین فلاحی اور ماسٹر توقیر عالم صاحبان کے ساتھ مانو سینٹر جو نیا نیا جامعہ میں قائم ہونے والاتھا ،اس کے تعارف کے لیے قرب وجوار کا سفر کیاگیا جس میں خیر ٹیکنیکل سنٹر ڈومریاگنج، جامعہ دارالعلوم بستی ، اترولہ کالج ، وغیرہ گئے ۔بستی شہر میں ایک حکیم صاحب سے ملاقات بہت ایمان افروز رہی۔

جامعہ میں غالباً ایس آئی او کی جانب سے سائیکلوں کا نظم تھا جس طالب علم کو ضرورت ہو وہ لے جائے اور گھنٹہ کے حساب سے پیسے جمع کردے۔ ایک بار مجھے بخار آگیا اور کیل دن رہ گیا۔ میں ابھی ٹھیک نہیں ہوپایا تھا لیکن آج پہلا دن کلاس گیا تھا کہ چھوٹا بھائی اشتیاق احمد کو بھی اچانک تیز بخار آگیا ۔ میں نے چھٹی لی اور اپنے کلاس کے کسی ساتھی کو تیار بھی کرلیا کہ وہ سائیکل سے جاکر دوا لے آئیں گے لیکن مجھے کہا گیا کہ نہیں ابھی جاؤ اور خود ہی لے کر جاؤ ۔ میں خود بخار کی حالت میں تھا اور بمشکل سائیکل پر بٹھاکر لے گیا اور لایا۔ عصر بعد جب مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب کو صورت حال بتایا تو مولانا بہت ناراض ہوئے اور متعلق استاد کو بتایا کہ ہر طالب علم کے ساتھ ایک جیسا ہی ضابطہ نہیں چلتا ہے ۔ بچوں کو پہچان لیں اور ان کی باتیں دھیان سے سنا کریں۔مصباح میں چوں کہ مجھ سے چھوٹا بھائی اشتیاق احمد بھی تھا جو عربی اول سے عربی پنجم وہیں سے مکمل کیا ہے۔ اس کے کلاس کے سارے ساتھی مجھے اپنا بڑا بھائی اور محترم سمجھتے تھے۔ کبھی کبھار چائے پانی میں ، کبھی کھیل کے میدان میں ، کبھی دوران مطالعہ برآمدے میں تو کبھی انجمنوں میں ہمارے ساتھ ان جو کا سلوک رہا ،وہ کافی خوش گوار تھا ۔ محمد یاسر ،محمود احمد، برہان احمد صدیقی ، معین الدین بالخصوص بڑے احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔

مصباح میں دیکھا اساتذہ کی بڑی اچھی ٹیم تھی ۔ مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب سعودیہ میں زیرتعلیم تھے اور چھٹی کے زمانہ میں مجھے تلکہنا میں منہاج العربیہ پڑھاچکے تھے۔وہ مجھے بہت اچھی طرح جانتے تھے اور بہت محبت کرتے تھے۔ مولانا اشتیاق عالم فلاحی بڑے ذہین اور محنتی استاد تھے۔ مولانا عبدالوکیل رحمانی صاحب ہر مضمون کے ماہر استاد تھے۔ مفتی نعیم الحق قاسمی مسائل کو سمجھانے کا بہترین گر جانتے تھے۔ مولانا فیض احمد ندوی صاحب ادب پڑھاتے تو خوبصورت الفاظ کا ایساانتخاب کرتے کہ مفہوم بھی ادا ہوجاتا اور ایسا لگتا جیسے مخاطب کو پھولوں کا گچھا پیش کیا جارہا ہے۔ مولانا اظہر الدین صاحب تقصیرات کا اعتراف بڑی آسانی سے کروالیتے تھے۔ مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب طلبہ کے ہر دلعزیز تھے۔ ماسٹر توقیر عالم صاحب انتہائی محنتی اور مخلص استاد تھے۔ عبیداللہ فیضی صاحب اپنے شعبہ کے انتظام وانصرام میں مہارت رکھتے تھے ۔ مولانا شبیر احمد فلاحی انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ میرا داخلہ ٹیسٹ لے رہے تو میرے ابو سے کہا آپ بے فکر گھر جائیں ۔ ان کا سب کام ہوگیا ہے ۔ ایسے بچے داخلہ کے لیے آتے ہیں تو طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔غرض کہ اساتذہ کی حسین مجلس تھی جہاں طلبہ علمی پیاس بھی بجھاتے تھے اور اپنے ذات کو سنوارتے اور نکھارتے بھی تھے۔مولانا اظہر الدین فلاحی صاحب اور مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب کو میں نے اپنا سرپرست پایا۔ جامعہ کا کوئی نقصان ہوجاتا ، یہاں تک کہ کوئی پھول یا پھل توڑدیا جاتا تو مولانا انعام اللہ فلاحی صاحب نماز بعد ایسی تذکیر کرتے کہ سخت دل بھی موم ہوجائے ۔ وہ اس نقصان کا درد اس طرح بیان کرتے گویا ان کا کوئی ہاتھ پیر ٹوٹ گیا ہو۔ یہی وجہ تھی جامعہ میں چھوٹے بڑے طلبہ کی موجودگی میں بھی پھول اور پھل محفوظ رہتا تھا۔ مصباح العلوم چوکونیاں کے دوسال میری زندگی کے بہت قیمتی ماہ و سال ہیں اور ان کی یادیں بھی زیادہ ہیں کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑ دیا جائے ۔ بہر حال اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تحریر انجمن کے سپرد کی جارہی ہے اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین!

3 Comments

  1. Mohd Sarfraz

    Bahot umdah tahreer
    Khubsurat yaden 👍

    Reply
  2. belalfalahi@gmail.com

    بہت عمدہ مضمون
    جامعہ کی اچھی ڈیر کرائی آپ نے
    لکھتے رہئے –

    Reply

Submit a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *